ولید پور پرستان کی مغربی سرحد کے ساتھ واقع ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ اس ملک میں کل چار صوبے ہیں، اور ان چار صوبوں میں 100 شہر آباد ہیں۔ کچائی پور ایک چھوٹی سی بستی ہے جو ولید پور کے شہر چمبلی میں واقع ہے۔ کچائی پور کے اردگرد ہریالی ہی ہریالی ہے اور اس میں 20 گھر خوشی خوشی اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ لیکن ان کی خوشحال زندگیوں میں ایک بہت بڑی پریشانی بھی ہے، اور اس پریشانی کا نام ہے آرتک اور اس کا گھر۔
آرتک کی عمر 60 سال ہے اور اس کے گھر میں اس کی ایک بیوی اور دو بیٹے رہتے ہیں۔ آرتک بستی میں ہمیشہ فساد پھیلاتا تھا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر بلاوجہ لوگوں سے لڑتا جھگڑتا، جس کی وجہ سے ہر کوئی اس سے خوف کھاتا تھا۔ یہی حالت اس کے بچوں کی تھی، وہ بھی اپنے باپ کو دیکھ کر بالکل اسی کے نقشِ قدم پر چلتے تھے۔
اس کے علاوہ، آرتک کے گھر کی ایک اور چیز بھی بستی کے لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث تھی، اور وہ تھی پانی۔ آرتک کے گھر میں جو بھی پانی استعمال ہوتا، وہ اسے ہر روز گھر کے باہر سڑک پر پھینک دیتے، جس کی وجہ سے گھر کے سامنے والی سڑک ہمیشہ تالاب کا منظر پیش کرتی تھی۔ وہاں سے گزرنے والے لوگ دل ہی دل میں اسے گالیاں دیتے، مگر آرتک اور اس کے بیٹوں کے خوف کی وجہ سے کچھ نہ بولتے۔
آرتک کے بڑے بیٹے کا نام خلیل تھا، جس کی عمر 25 برس ہو چکی تھی۔ خلیل کے والدین اس کی شادی کے بارے میں سوچنے لگے اور جب ایک اچھا رشتہ ملا، تو اس کی شادی کر دی۔ خلیل اب اپنی بیوی شازیہ کے ساتھ ایک نئی زندگی بسر کرنے لگا۔
شادی کو آٹھ ماہ گزر چکے تھے کہ ایک دن اچانک شازیہ کی طبیعت خراب ہو گئی۔ خلیل نے فوراً ایمبولینس کو کال کی اور اسے ایمرجنسی میں شفٹ کر دیا۔ ڈاکٹرز نے چیک کرنے کے بعد خلیل کو بتایا کہ سب کچھ ٹھیک ہے اور ساتھ ہی ایک خوشخبری بھی دی کہ وہ بہت جلد باپ بننے والا ہے، یعنی شازیہ حاملہ ہے۔
ان دنوں گرمی اپنے عروج پر تھی۔ ایک دن شازیہ اپنے کمرے میں آرام کر رہی تھی کہ اچانک بجلی چلی گئی۔ کمرے میں گرمی کی شدت سے شازیہ کا برا حال ہو گیا۔ اس نے سوچا کہ کیوں نہ گھر سے باہر نکل کر تھوڑی سی ہوا لے لی جائے۔ باہر نکل کر شازیہ نے کچھ بہتر محسوس کیا اور سکون کی سانس لی۔
جیسے ہی شازیہ نے اپنا ایک قدم آگے بڑھایا، سڑک پر موجود کیچڑ کی وجہ سے اس کا پاؤں پھسل گیا اور وہ پیٹ کے بل سڑک پر جا گری۔ درد کی شدت سے شازیہ زور زور سے چلانے لگی۔ اس کی آواز سن کر خلیل گھر سے باہر نکلا، فوراً ایمبولینس بلائی اور شازیہ کو ہسپتال لے گیا۔
خلیل اور اس کے تمام گھر والے پریشانی کی حالت میں ایمرجنسی کمرے کے باہر کھڑے رو رہے تھے کہ اتنے میں ڈاکٹر کمرے سے باہر آیا اور بولا، “ہم آپ کی بیوی اور بچے کو نہیں بچا سکے۔”
یہ سن کر خلیل کے سینے میں شدید درد اٹھا اور وہ وہیں کھڑے کھڑے دم توڑ گیا۔